Saturday, May 20, 2023

yom shahadat imam Jaffer Sadiq alaihi

 

yom shahadat imam Jaffer Sadiq alaihi

یوم شہادت امام جعفر صادق علیہ

السلام 25 شوال

نام: جعفر بن محمد (ع)

والدہ: ام فروا، قاسم بن محمد بن ابوبکر کی بیٹی۔

کنیت (سرپرستی): ابو عبد اللہ۔

لقب (عنوان): الصادق۔

ولادت: آپ کی ولادت مدینہ میں 83 ہجری میں ہوئی

شہادت: آپ کی وفات 148 ہجری میں زہر سے ہوئی اور اپنے والد کے پاس بقیع میں مدفون ہیں۔


ولادت امام صادق علیہ السلام:

17 ربیع الاول 83 ہجری کو مدینہ منورہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے وجود کا سورج آپ کی والدہ ام فروہ کی گود سے طلوع ہوا۔ امام جعفر صادق (ع) کی تاریخ ولادت وہی ہے جو ہمارے پیغمبر اکرم (ص) کی ہے۔


امام جعفر صادق علیہ السلام کا خاندانی پس منظر:

امام جعفر صادق علیہ السلام کے تین القاب ہیں۔ وہ ہیں: الصادق، الفضل، الطاہر

ان کے والد امام محمد باقر علیہ السلام اپنے بیٹے کی پیدائش سے بہت خوش اور خوش تھے۔ ان کی والدہ ام فروہ محمد بن ابی بکر کی پوتی تھیں جو امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ امام علی علیہ السلام نے ان کے بارے میں بارہا فرمایا کہ محمد میرے روحانی اور اخلاقی فرزند ہیں۔ اسماء بنت عمیس، محمد بن ابی بکر کی والدہ تھیں، اور وہ ایک متقی خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ وہ مسلسل حضرت فاطمہ زہرا (س) کی خدمت میں حاضر رہتی تھیں اور اس پر فخر کرتی تھیں۔ جنگ موتہ میں اپنے شوہر جعفر ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد اسماء بنت عمیس نے ابوبکر صدیق سے شادی کی اور ان کی وفات کے بعد امام علی (ع) سے شادی کی۔


امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی والدہ کے بارے میں فرمایا: میری والدہ متقی، دیانتدار اور متقی خواتین میں سے تھیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عمر 15 سال تھی جب آپ کے دادا امام سجاد علیہ السلام شہید ہوئے اور جب آپ کے والد امام محمد باقر علیہ السلام شہید ہوئے تو ان کی عمر 34 سال تھی۔


سیاسی پس منظر:

امام حسین (ع) کی شہادت کے نتیجے میں بنی امیہ کی حکومت ہل گئی جس نے لوگوں کو اپنے دشمن اور ان کے بارے میں مایوسی کا شکار بنا دیا۔ اس سے بنی عباسی حکومت کے قیام کا راستہ کھل گیا۔ ان دونوں طاقتوں کے درمیان خلیج نے شیعہ نظریہ اور مکتب فکر کی تبلیغ کا راستہ کھول دیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ایک علمی تحریک کے ذریعے اسلام کی تعلیم کو اس طرح پھیلا سکتے تھے کہ اسے دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچایا جا سکے۔


امام جعفر صادق علیہ السلام کی خصوصیت:

امام جعفر صادق علیہ السلام کی خصوصیتیں ہم سب جانتے ہیں کہ انسانوں کا اخلاق ان کے باطنی کردار کی عکاسی کرتا ہے اور ہر شخص اس کے اخلاق سے پہچانا جا سکتا ہے۔

بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے اخلاق اور جو کچھ ان کے باطن میں ہے اس کو ظاہر نہیں کرتے اور اس کی نمائش نہیں کرتے۔ ان کے دلوں میں جو کچھ ہے وہ برقی لیمپ کے بیرونی حصے کو بجلی کے سوئچ کی طرح جلا دیتا ہے۔


امام جعفر صادق (ع) کی پوری زندگی دوسرے ائمہ (ع) کی طرح حقیقی اور حقیقی اسلام کا روشن درس تھی۔ وہ خود اسلامی اخلاق، اخلاق اور طرز عمل کا نمونہ اور نمونہ سمجھے جاتے تھے۔

 آپ تمام لوگوں میں، تمام قبیلوں میں سے ایک باپ اور بیٹا نہیں پا سکتے جو خیالات، خیالات، کردار اور طرز عمل کے تمام زاویوں سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہوں۔ لیکن پیغمبر اسلام (ص) کا خاندان اور ان کے جانشین سب ایک ہی لائن پر تھے اور ایک ہی مقصد، ایک نظریے کے ساتھ اپنا آسمانی فریضہ انجام دیتے تھے اور ان کے کلام، کردار اور اخلاق میں کسی قسم کا فرق نہیں تھا۔


امام صادق جعفر علیہ السلام کی اخلاقی قدر و فضیلت

امام جعفر صادق علیہ السلام کی اخلاقی قدر و فضیلت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ ان کے چار ہزار شاگردوں میں سے کسی ایک نے بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے اخلاق و کردار پر کوئی اعتراض یا تنقید نہیں کی۔ اور ان میں کوئی کمزور نکتہ نہیں پایا۔ وہ کھانے پینے، آرام کرنے اور آرام کرنے، چلنے پھرنے، بولنے اور دوسروں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے ایک عملی نمونہ اور نمونہ تھے۔ ان کا اپنے دوستوں کے ساتھ وہی سماجی رویہ تھا جیسا کہ ان کا اپنے بچوں کے ساتھ تھا۔


امام کی زندگی

چھٹے امام کی امامت کے دوران ان کے لیے مذہبی تعلیمات کی تبلیغ کے لیے زیادہ امکانات اور زیادہ سازگار ماحول موجود تھا۔ یہ اسلامی سرزمینوں میں بغاوتوں کے نتیجے میں ہوا، خاص طور پر اموی خلافت کا تختہ الٹنے کے لیے مسودہ کی بغاوت، اور خونریز جنگیں جو بالآخر امویوں کے زوال اور نابود ہونے کا باعث بنیں۔ شیعہ تعلیمات کے زیادہ مواقع بھی اس سازگار زمین کا نتیجہ تھے جو پانچویں امام نے اپنی امامت کے بیس سال کے دوران اسلام کی حقیقی تعلیمات اور پیغمبر اکرم (ص) کے علوم کی تبلیغ کے ذریعے تیار کیا تھا۔


امام نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی امامت کے بالکل آخر تک، جو کہ بنو امیہ کے خاتمے اور عباسی خلافت کے آغاز کے ساتھ ہم عصر تھا، دینی علوم کی ترویج و اشاعت کی۔ اس نے فکری اور منتقلی علوم کے مختلف شعبوں میں بہت سے اسکالرز کو تعلیم دی، جیسے زرارہ، محمد بن مسلم، مؤمن تقی، ہشام بن حکم، ابان ابن تغلب، ہشام بن سلیم، حوریث، ہشام کلبی ناصابہ، اور جابر بن حیان، کیمیا گر. یہاں تک کہ بعض اہم سنی علماء جیسے سفیان ثوری، ابو حنیفہ، حنفی مکتبِ قانون کے بانی، قاضی۔ سکونی، قادی ابوالبختاری اور دیگر کو ان کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی درس و تدریس سے چار ہزار علمائے حدیث اور دیگر علوم پیدا ہوئے۔


اپنی زندگی کے آخر تک، امام عباسی خلیفہ منصور کی طرف سے سخت پابندیوں کا نشانہ بنے، جس نے پیغمبر اکرم (ص) کی اولاد میں سے بہت سے اہل تشیع کو اس قدر اذیت اور بے رحمی سے قتل کرنے کا حکم دیا کہ ان کا یہ عمل ظلم سے بھی بڑھ گیا۔ اور بنی امیہ کی غفلت۔ اس کے حکم پر انہیں گروہوں میں گرفتار کیا گیا، کچھ کو گہری اور تاریک جیلوں میں ڈالا گیا اور ان کی موت تک تشدد کیا گیا، جب کہ دوسروں کے سر قلم کیے گئے یا زندہ دفن کر دیے گئے، یا عمارتوں کی دیواروں کے نیچے یا درمیان میں رکھ دیے گئے، اور ان کے اوپر دیواریں تعمیر کر دی گئیں۔


اموی خلیفہ ہشام نے چھٹے امام کو گرفتار کر کے دمشق لانے کا حکم دیا تھا۔ بعد میں امام کو عباسی خلیفہ صفح نے گرفتار کر لیا اور عراق لایا۔ آخر کار منصور نے اسے دوبارہ گرفتار کر لیا اور سامرہ لایا جہاں اس نے امام کو زیر نگرانی رکھا، اس کے ساتھ ہر طرح سے سخت اور بدتمیز تھا، اور کئی بار اسے قتل کرنے کا سوچا۔ بالآخر، امام کو مدینہ واپس جانے کی اجازت دی گئی جہاں انہوں نے اپنی باقی زندگی چھپ کر گزاری یہاں تک کہ منصور کی سازش کے ذریعے انہیں زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔


امام کی شہادت کی خبر سن کر منصور نے مدینہ کے گورنر کو خط لکھا کہ اہل خانہ سے اظہار تعزیت کے بہانے امام کے گھر جا کر امام کی وصیت اور وصیت طلب کریں اور اسے پڑھیں۔ جس کو امام نے اپنا وارث اور جانشین منتخب کیا اس کا سر موقع پر ہی قلم کر دیا جائے۔ بلاشبہ منصور کا مقصد امامت کے سارے سوال اور شیعوں کی خواہشات کو ختم کرنا تھا۔ جب مدینہ کے گورنر نے حکم دیا تو آخری وصیت اور وصیت پڑھیں۔ اسے معلوم ہوا کہ امام نے اپنی آخری وصیت اور وصیت کے لیے ایک کے بجائے چار لوگوں کا انتخاب کیا ہے: خود خلیفہ، مدینہ کے گورنر، عبداللہ عفت، امام کے بڑے بیٹے اور ان کے چھوٹے بیٹے موسیٰ۔ اس طرح منصور کی سازش ناکام ہو گئی۔





yom shahadat imam Jaffer Sadiq alaihi

salam 25 shawaal

naam : Jaffer ban Mohammad ( ain )

walida : umm Ferwa , Qasim ban Mohammad ban abubaker ki beti .

kuniat ( sarparasti ) : abbu Abdul Allah .

laqab ( unwan ) : Alsadiq .

wiladat : aap ki wiladat madinah mein 83 hjri mein hui

shahadat : aap ki wafaat 148 hjri mein zeher se hui aur –apne waalid ke paas بقیع mein madfoon hain .


wiladat imam Sadiq alaihi salam :

17 Rabiey al-awwal 83 hjri ko madinah Munawwara mein imam Jaffer Sadiq alaihi salam ke wujood ka Sooraj aap ki walida umm فروہ ki goad se tulu sun-hwa. imam Jaffer Sadiq ( ain ) ki tareekh wiladat wohi hai jo hamaray paighambar akram ( s ) ki hai .


imam Jaffer Sadiq alaihi salam ka khandani pas manzar :

imam Jaffer Sadiq alaihi salam ke teen alqab hain. woh hain : Alsadiq , الفضل, الطاہر

un ke waalid imam Mohammad baqar alaihi salam –apne betay ki paidaiesh se bohat khush aur khush thay. un ki walida umm فروہ Mohammad ban abi baker ki poti theen jo imam Ali alaihi salam ke ashaab mein se thay. imam Ali alaihi salam ne un ke baray mein baarha farmaya ke Mohammad mere Rohani aur ikhlaqi Farzand hain. Asma Bint عمیس, Mohammad ban abi baker ki walida theen, aur woh aik mut-taqi khatoon samjhi jati theen. woh musalsal hazrat fatima Zohra ( seen ) ki khidmat mein haazir rehti theen aur is par fakhr karti theen. jung mouta mein –apne shohar Jaffer Ibn abi taalib ki shahadat ke baad Asma Bint عمیس ne abubaker Seddiq se shadi ki aur un ki wafaat ke baad imam Ali ( ain ) se shadi ki .


imam Jaffer Sadiq alaihi salam ne apni walida ke baray mein farmaya : meri walida mut-taqi, dianatdar aur mut-taqi khawateen mein se theen. imam Jaffer Sadiq alaihi salam ki Umar 15 saal thi jab aap ke dada imam sajjad alaihi salam shaheed hue aur jab aap ke waalid imam Mohammad baqar alaihi salam shaheed hue to un ki Umar 34 saal thi .


siyasi pas manzar :

imam Hussain ( ain ) ki shahadat ke nateejay mein bani Umia ki hukoomat hil gayi jis ne logon ko –apne dushman aur un ke baray mein mayoosi ka shikaar bana diya. is se bani abbasi hukoomat ke qiyam ka rasta khil gaya. un dono taqaton ke darmiyan khaleej ne Shiah nazriya aur maktab fikar ki tableegh ka rasta khol diya. imam Jaffer Sadiq alaihi salam aik Ilmi tehreek ke zariye islam ki taleem ko is terhan phela satke thay ke usay duniya ke tamam logon tak pohanchaya ja sakay .


imam Jaffer Sadiq alaihi salam ki khasusiyat :

imam Jaffer Sadiq alaihi salam ki خصوصیتیں hum sab jantay hain ke insanon ka ikhlaq un ke baatini kirdaar ki akkaasi karta hai aur har shakhs is ke ikhlaq se pehchana ja sakta hai .

bohat kam log aisay hain jo –apne ikhlaq aur jo kuch un ke batin mein hai is ko zahir nahi karte aur is ki numayesh nahi karte. un ke dilon mein jo kuch hai woh barqi lamp ke bairooni hissay ko bijli ke switch ki terhan jala deta hai .


imam Jaffer Sadiq ( ain ) ki poori zindagi dosray aymh ( ain ) ki terhan haqeeqi aur haqeeqi islam ka roshan dars thi. woh khud islami ikhlaq, ikhlaq aur tarz amal ka namona aur namona samjhay jatay thay .

aap tamam logon mein, tamam qabeelon mein se aik baap aur beta nahi pa satke jo khayalat, khayalat, kirdaar aur tarz amal ke tamam zawiyon se aik dosray se mushabihat rakhtay hon. lekin paighambar islam ( s ) ka khandan aur un ke janasheen sab aik hi line par thay aur aik hi maqsad, aik nazriye ke sath apna aasmani fareeza injaam dete thay aur un ke kalaam, kirdaar aur ikhlaq mein kisi qisam ka farq nahi tha .


imam Sadiq Jaffer alaihi salam ki ikhlaqi qader o fazeelat

imam Jaffer Sadiq alaihi salam ki ikhlaqi qader o fazeelat ke baray mein itna hi kaafi hai ke un ke chaar hazaar shagrdon mein se kisi aik ne bhi imam Jaffer Sadiq alaihi salam ke ikhlaq o kirdaar par koi aitraaz ya tanqeed nahi ki. aur is mein koi kamzor nuqta nahi paaya. woh khanay peenay, aaraam karne aur aaraam karne, chalne phirnay, bolnay aur doosron ke sath bartao ke hawalay se musalmanoon ke liye aik amli namona aur namona thay. is ka –apne doston ke sath wohi samaji rawayya tha jaisa ke is ka –apne bachon ke sath tha .


uski zindagi

chhatay imam ki imamat ke douran un ke liye mazhabi talemaat ki tableegh ke liye ziyada imkanaat aur ziyada sazgaar mahol mojood tha. yeh islami srzminon mein baghavaton ke nateejay mein sun-hwa, khaas tor par اموی khilafat ka takhta ulatnay ke liye musevida ki baghaawat, aur khonriz jaanghein jo bil akhir امویوں ke zawaal aur nabood honay ka baais banin. Shiah talemaat ke ziyada mawaqay bhi is sazgaar zameen ka nateeja thay jo panchwin imam ne apni imamat ke bees saal ke douran islam ki haqeeqi talemaat aur paighambar akram ( s ) ke aloom ki tableegh ke zariye tayyar kya tha .

imam ne is mauqa se faida uthatay hue apni imamat ke bilkul aakhir tak, jo ke bano Umia ke khatmay aur abbasi khilafat ke aaghaz ke sath hum asar tha, deeni aloom ki tarweej o ashaat ki. is ne fikri aur muntaqili aloom ke mukhtalif shobo mein bohat se askalrz ko taleem di, jaisay زرارہ, Mohammad ban muslim, momn Tqi , Hisham ban hukum, ابان Ibn تغلب, Hisham ban Saleem , حوریث, Hisham kalbi ناصابہ, aur jabir ban حیان, chemiya gir. yahan tak ke baaz ahem suni ulama jaisay Sufyan Sauri , abbu Hanifa , Hanfi mktbِ qanoon ke baani, qaazi. sukooni, qadee ابوالبختاری aur deegar ko un ke shagird honay ka Sharf haasil tha. kaha jata hai ke un ki dars o tadrees se chaar hazaar ulmaye hadees aur deegar aloom peda hue .


apni zindagi ke aakhir tak, imam abbasi khalifa mansoor ki taraf se sakht pabandion ka nishana banay, jis ne paighambar akram ( s ) ki aulaad mein se bohat se ahal tashee ko is qader aziat aur be rehmi se qatal karne ka hukum diya ke un ka yeh amal zulm se bhi barh gaya. aur bani Umia ki ghaflat. is ke hukum par inhen garohoon mein girftar kya gaya, kuch ko gehri aur tareek jailon mein dala gaya aur un ki mout tak tashadud kya gaya, jab ke doosron ke sir qalam kiye gaye ya zindah dafan kar diye gaye, ya imaarton ki dewaron ke neechay ya darmiyan mein rakh diye gaye, aur un ke oopar diivaaren taamer kar di gayeen .


اموی khalifa Hisham ne chhatay imam ko girftar kar ke Dimashq laane ka hukum diya tha. baad mein imam ko abbasi khalifa صفح ne girftar kar liya aur Iraq laya. aakhir-kaar mansoor ne usay dobarah girftar kar liya aur Samra laya jahan is ne imam ko zair nigrani rakha, is ke sath har terhan se sakht aur bad tameez tha, aur kayi baar usay qatal karne ka socha. bil akhir, imam ko madinah wapas jane ki ijazat di gayi jahan unhon ne apni baqi zindagi choup kar guzari yahan tak ke mansoor ki saazish ke zariye inhen zeher day kar shaheed kar diya gaya


imam ki shahadat ki khabar sun kar mansoor ne madinah ke governor ko khat likha ke ahal khanah se izhaar taaziyat ke bahanay imam ke ghar ja kar imam ki wasiyat aur wasiyat talabb karen aur usay parheen. jis ko imam ne apna waris aur janasheen muntakhib kya is ka sir mauqa par hi qalam kar diya jaye. bilashuba mansoor ka maqsad imamat ke saaray sawal aur shiaon ki khwahisaat ko khatam karna tha. jab madinah ke governor ne hukum diya to aakhri wasiyat aur wasiyat parheen. usay maloom sun-hwa ke imam ne apni aakhri wasiyat aur wasiyat ke liye aik ke bajaye chaar logon ka intikhab kya hai : khud khalifa, madinah ke governor, abdullah Iffat , imam ke barray betay aur un ke chhootey betay moose. is terhan mansoor ki saazish nakaam ho gayi .

No comments:

Post a Comment

72 Taare by martyrs of Karbala